شہر میں سخت بد امنی کا دور دورہ تھا۔ ہڑتال پہ ہڑتال ہو رہی تھی۔ یہ فتنہ کار خانوں سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ آگ کی طرح شہر کے ہر گوشہ میں پھیل گیا۔ اس شورش کو فرد کرنے کے لئے پولیس ہر ممکن کوشش کو عمل میں لائی۔مگر بے سود وہ شورش مٹنے والی نہ تھی۔ شہر اگرچہ پہلے کی طرح گو ناگوں دلچسپیوں کا مرقع تھا۔ اس کے بازاروں میں ویسی ہی رونق قائم تھی اور خرید و فروخت حسب معمول جاری تھی۔ با ایں ہمہ کوئی شخص بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکتا تھا کہ شہر میں ایک اضطراب کی لہر دوڑ رہی ہے اور معمولی سے معمولی واقعہ ایک عظیم ہیجان کا موجب بن رہا ہے۔ برقنداز کی سیٹی کی آواز لوگوں کے دلوں پر بہت ہیبت طاری کر دیتی تھی۔ اکثر لوگ تو سیٹی کی آواز سن کر دوڑ جاتے کہ دیکھیں کیا ما جرا ہے۔ مگر بعض اپنے آپ کو دو کانوں میں چھپا لیتے.... مگر وہ آخر کس سے چھپ رہے تھے؟.... وہ کونسی شے تھی۔ جو انہیں اس قدر خوفزدہ کر رہی تھی؟ لیکن یہ کسی شخص کو معلوم نہ تھا اور پھر بھی ہر شخص کو ڈر تھا کہ کوئی خوفناک اور ہیبت ناک واقعہ ضرور پیش ہو کر رہے گا۔ عموماً چیتھڑوں میں ملبوس مزدور بازار میں کھڑے دبی زبان میں باتیں کرتے نظر آتے راستہ چلتے ہوئے وہ امیر لوگوں کی طرف حقارت اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے۔ مگر وہ ان کے زرد اور غلیظ چہروں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے تھے۔ ایسے شخص اپنے بھدے چہروں اور غلیظ لباس سے ان بازاروں کی خوبصورتی کو جو بہار کے جاں آفریں موسم میں عروس نو بہار کی طرح سجے ہوئے تھے، ملوث کر رہے تھے۔ یہ عجیب شخص نا خواندہ مہمانوں کی طرح شہر کے با رونق بازاروں میں آوارہ چکر لگاتے۔ مگر ان سے کوئی شخص ہمکلام نہ ہوتا کہ مبادا اس سے ان کے جسم بھی ویسے ہی غلیظ ہو جائیں لیکن جو نہی کسی برقنداز کی ان پر نگاہ پڑ جاتی وہ لوگوں کے دلوں میں ارتعاش خفی پیدا کرتے ہوئے مختلف سمتوں میں بھاگے جاتے تھے۔ ’’ امی!یہ مزدور ہیں کیا؟‘‘ ’’ ہاں ، ہاں ! لیکن تم چلتے جاؤ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھو۔‘‘ ’’ لیکن امی وہ بھاگ کیو ں رہے ہیں ؟‘‘ ’’ پولیس سے.... دیکھو اب ایسی باتیں نہ کرو۔‘‘ ’’لیکن کیوں ؟.... کیا انہیں سڑکوں پر چلنے کا حکم نہیں ؟‘‘ ’’ انہیں اجازت نہیں۔‘‘ ’’ انہیں اجازت کیوں نہیں ؟‘‘ ’’ خدا کے لئے مجھے تنگ نہ کرو.... اپنا ہاتھ مجھے پکڑاؤ اور جلدی جلدی چلنے کی کوشش کرو.... نہیں تو ہمیں بھی کسی برقنداز کا کوڑا....‘‘ سرگ نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کے ساتھ ساتھ دوڑنا شروع کر دیا مزدوروں کے گروہ کے منتشر ہونے پر ماں سخت خوفزدہ ہو گئی تھی۔ اس کی اس وقت صرف یہی خواہش تھی کہ کسی طرح وہ اپنے مکان میں پہنچ جائے۔ ’’ کیا یہ مزدور شریر ہیں امی؟‘‘ ’’ کون؟.... کون؟‘‘ ’’ مزدور۔‘‘ ’’مجھے معلوم نہیں .... وہ اچھے بھی ہیں اور برے بھی.... مگر وہ کام ہی نہیں کرتے۔‘‘ ’’ کیا وہ مست ہیں ؟‘‘ ’’ہاں ، ہاں ! .... مگر تم ٹھہرو مت....اور اس کی طرح مست نہ بنو۔‘‘ ’’کیا وہ بڑے ہیں امی؟‘‘ ’’وہ ابھی جواب بھی نہ دینے پائی تھی کہ چند گھوڑا سوار سپاہی بازار میں نمودار ہوئے۔ ان میں سے ایک نے اپنے گھوڑے کے ایک کوڑا رسید کیا۔ کوڑے کی آواز سرگ کی ماں کے کانوں میں اس طرح گونجی جیسے بندوق کی آواز۔ وہ چلائی اور بغیر کرایہ طے کئے سرگ کو ایک گاڑی میں دھکیل کر کوچوان کی طرف دیکھتے ہوئے خوفزدہ لہجہ میں کہا’’ جلدی کرو.... جلدی کرو.... جہاں تک جلدی ہو سکے۔‘‘ ’’ مگر کہاں مادام!‘‘ کوچوان نے مودبانہ کہا۔ ’’ تم سیدھے چلے چلو.... آہ میرے خدا.... جلدی چلو۔‘‘ ’’ خوف مت کیجئے مادام! وہ ہمیں ہاتھ تک نہیں لگائیں گے۔‘‘ جب گاڑی بازار کا پہلا مو ڑ مڑی توسرگ کی ماں کی جان میں جان آئی اور اطمینان کا سانس لے کر بولی: ’’ دیکھو.... میں تمہیں ساڑھے چار آنے سے زیادہ کرایہ نہیں دینے کی۔‘‘ ’’ مگر یہ کرایہ مناسب نہیں محترمہ!‘‘ ’’ تو پھر گاڑی ٹھہرا لو.... ہم ٹریم کار میں گھر چلے جائیں گے۔‘‘ ’’ بہت بہتر مادام.... مگر مجھے ڈر ہے کہ آپ کو بے فائدہ وقت ضائع کرنا پڑے گا.... ٹریم کاریں آج نہیں چلیں گی۔‘‘ ’’کون کہتا ہے؟‘‘ ’’ میں نے کل سنا تھا کہ ٹریم کار چلانے والے مزدور ہڑتال کر رہے ہیں۔‘‘ اسی اثنا میں مزدوروں کا ایک گروہ گاڑی کے قریب سے گزرا اور سرگ کی ماں پھر خوفزدہ ہو گئی اور کوچوان کو اشارہ کیا کہ وہ گاڑی کو پھر چلا دے۔ سرگ اپنی ماں کی گود میں بیٹھا ہوا اس گروہ کی طرف خوفزدہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ ’’ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پولیس ان لوگوں کے پیچھے اتنی سر گرداں کیوں ہو رہی ہے۔ اگر وہ کام نہیں کرتے....تو نہ کریں .... کچھ عرصہ کے بعد بھوک سے تنگ آ کر خود ہی سرنگوں ہو جائیں گے۔ ’’ آپ درست فرما رہی ہیں مادام؟.... آپ ایک حیوان کو فاقہ کشی کے حربہ سے مطیع کر سکتے ہیں اور یہی حربہ انسان کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ مگر ایک غریب انسان کو اس طرح آزار پہنچانا گناہ ہے.... گناہ کبیرہ!‘‘ کوچوان نے اپنی گھنی داڑھی کو کھجاتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر خاموش رہ کر کوچوان پھر سرگ کی ماں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا’’ دیکھئے آپ ایک قیمتی چغہ پہنے ہوئے ہیں اور میں ایک بھدا کوٹ۔ مگر یہ بتلائیے ان دونوں چیزوں کو تیار کرنے والا کون ہے؟‘‘ ’’ اس کے متعلق زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں۔ اگر تمہارے پاس بھی روپیہ ہو تو تم بھی ایسے قیمتی کپڑے پہن سکتے ہو.... اگر ہمارے آدمی کام نہیں کریں گے تو کیا غیر ممالک سے چیزیں منگائی نہیں جا سکتیں ؟‘‘ ’’ لیکن اگر ذرائع آمدورفت ہی بند ہو گئے تو.... یعنی اگر ریلوے کے مزدوروں نے بھی ہڑتال کر دی تو پھر آپ وہ چیزیں کہاں سے منگوائیں گی؟‘‘ ’’ ایسا خیال کرنا محض بے وقوفی ہے.... گورنمنٹ بھلا کیا ایسا کرنے کی اجازت دے گی؟‘‘ ’’ معلوم نہیں مادام! مگر میں نے سنا ہے کہ ریل والے بھی عنقریب ہڑتال کرنے والے ہیں۔‘‘ سرگ، ماں اور کوچوان کی گفتگو کو بڑے غور سے سن رہا تھا۔وہ یہ سب کچھ سن کر سخت حیران تھا کہ وہ لوگ جو دوسروں کے کپڑے اور دیگر اشیا تیار کرتے ہیں ، بازاروں میں پولیس سے اس طرح کیوں بھاگتے پھرتے ہیں۔ اس کی ماں نے ابھی ابھی اسے ایک نیا کوٹ خرید کر دیا تھا جو اس وقت اس کے گھٹنوں پر کاغذ میں لپٹا ہوا پڑا تھا۔سرگ بہت خوش تھا کہ اس کی ماں نے اسے یہ کوٹ اس وقت سے پہلے خرید کر دیا جبکہ وہ وقت آ رہا تھا کہ کپڑے تیار ہونے بھی بند ہو جاتے۔ ’’ امی! کیا میرا نیا کوٹ بھی انہوں نے تیار کیا ہے؟‘‘ ’’ ہر ایک چیز.... ننھے میاں ! ہر ایک چیز انہی کی تیار کردہ ہے.... آپ کے جسم پر کوئی ایسی شے نہیں جو انہوں نے تیار نہ کی ہو۔‘‘ کوچوان نے بجائے ماں کے جواب دیا۔ ماں نے سرگ کے ہاتھ کو جھٹکا دیتے ہوئے سخت غصہ کے لہجہ میں کہا ’’زیادہ بک بک نہ کرو سرگ! تمہیں کوچوان سے گفتگو نہیں کرنی چاہئے۔‘‘ مگر کوچوان چپ نہ رہا اور اس موضوع پر دیر تک اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہا’’ معلوم نہیں وہ تمہیں گرفتار کیوں نہیں کرتے۔‘‘ سرگ کی ماں نے کوچوان سے مخاطب ہو کر کہا۔ اس پر کوچوان چپ ہو گیا اور تمام راستہ اس بارے میں گفتگو نہ کی۔ سرگ خیالات کا ہجوم لئے گھر میں داخل ہوا۔ وہ ہنوز یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مزدور برے ہیں یا اچھے۔ ’’ سونیا! آج ہم نے مزدور دیکھے۔.... مزدور‘‘ سرگ نے اپنی بہن کو پر اسرار لہجہ میں کہا۔ ’’وہ کس شکل کے ہیں سرگ؟‘‘ ’’ وہ.... وہ کسانوں کی طرح ہیں میرے خیال میں۔‘‘ گھر میں ان شخصوں کی بات جنہوں نے کار خانوں اور فیکٹریوں کو بند کر دیا تھا اور کام کرنے سے انکار کر دیا تھا، ہر روز گفتگو ہوتی۔ مگر سرگ اس گفتگو سے بھی کوئی نتیجہ بر آمد کرنے سے قاصر رہا۔وہ تا حال وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ آیا وہ لوگ اچھے ہیں یا برے۔ ایک روز اس نے اپنے خادم آگنیش سے دریافت کیا ’’کیا لوگ کار خانہ کو بند کر سکتے ہیں ؟‘‘ ’’ بہت آسانی سے ننھے آقا!‘‘ ’’ لیکن کس طرح؟‘‘ ’’ بس وہ کام کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔‘‘ ’’ لیکن ان کے بغیر کار خانہ چل ہی نہیں سکتا کیا؟‘‘ ’’ کار خانے کس طرح چلیں ننھے آقا۔ جبکہ ان کے بغیر کوئی کام ہی نہیں ہو سکتا۔‘‘ ’’ اچھا تو یہ بات ہے؟.... اسی طرح میرا نیا کوٹ بھی ان کے بغیر نہ تیار ہو سکتا۔‘‘ ’’ یقیناً۔‘‘ ’’ اور میرا چھوٹا کوٹ بھی؟‘‘ ’’ چھوٹا کوٹ، پاجامہ اور قمیص بھی.... اگر وہ سب چیزیں تیار نہ کرتے تو آپ ویسے ہی ہوتے جیسے قدرت نے آپ کو پیدا کیا تھا۔ ’’ بالکل عریاں ؟.... بے وقوف آدمی.... مگر میری امی مجھے دوسرے ملک سے کپڑے منگوا دیتی۔‘‘ ’’ مگر اس طرح تمہیں بہت انتظار کرنا پڑتا لیکن اگر وہاں بھی اس طرح ہڑتال ہوتی یا اگر ذرائع آمدورفت ہی بند ہو جاتے تو؟‘‘ ’’ ریل گاڑیاں بھی بند ہو جائیں گی کیا؟‘‘ ’’ افواہ تو ایسی ہی ہے۔‘‘ ’’ تو پھر میرے ابا کس طرح آئیں گے؟ میں انہیں کس طرح مل سکوں گا؟‘‘ ’’ اس حالت میں انہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا۔‘‘ ’’ خبر دار جو ایسی بات کہی! میں امی کو کہہ دوں گا کہ تم میرے ابا کی نسبت ایسے الفاظ استعمال کر رہے تھے۔‘‘ یہ کہہ کر سرگ تھوڑی دیر کے لئے چپ ہو گیا اور کچھ سوچنے لگا۔ لیکن چند منٹ کے بعد اپنے کوٹ کی آستین کو پکڑ کر کہنے لگا۔’’ اور تم کہو گے یہ آستین بھی انہی کے ہاتھ کی سلی ہوئی ہے۔‘‘ ’’ کیوں نہیں ؟‘‘ تمہاری والدہ نے صرف تمہیں جنم دیا ہے باقی....‘‘ ............................................................................... دو دن کے بعد ٹریم کاریں چلنی بند ہو گئیں۔ اخبار شائع نہ ہوئے۔ غسل خانوں پر قفل لگ گئے۔وہ بازار جو گیس سے بقعۂ نور بنے ہوئے ہوتے تھے، سخت تاریک ہو گئے۔ اس کے دو دن بعد ریل گاڑیوں کی آمدورفت بھی یک لخت بند ہو گئی جس سے شہر میں سخت ہیجان برپا ہو گیا اور لوگ اپنے عزیز و اقربا کے خطوط کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ سرگ کا ابا کبھی کا گھر آگیا ہوتا۔ مگر گاڑیوں کے بند ہو جانے کی وجہ سے گھر نہ پہنچ سکا۔ اس واقعہ نے گھر بھر کو سخت ہیجان میں مبتلا کر دیا تھا۔ سرگ کو صحن میں کھیلنے کی اجازت نہ تھی اس لئے وہ سارا دن کھڑکی میں بیٹھا بازار کے واقعات کو غور سے دیکھتا رہتا۔ ’’ کیا ابا گھر نہیں آئیں گے امی؟‘‘ ’’ وہ مجبور ہیں سرگ.... گاڑیوں کی آمدورفت ہی بند ہے۔‘‘ ’’امی! کیا یہ مزدور جو چاہیں کر سکتے ہیں ؟‘‘ ’’ کیا؟‘‘ ’’ میرا مطلب ہے کہ آیا یہ لوگ گاڑیوں کی آمدورفت بھی بند کر سکتے ہیں۔‘‘ ’’ معلوم تو یہی ہوتا ہے.... مگر اب تم مجھے ستاؤ مت! اتنا کہتے ہوئے سرگ کی ماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ یہ دیکھ کر سرگ خاموش ہو گیا اور پھر کھڑکی سے بازار کو حیران و پریشان نگاہوں سے دیکھنے لگ گیا۔ ’’ اگر میرے بس میں ہو، تو میں ان مزدوروں کو ایک ایک کر کے ہلاک کر ڈالوں۔‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا۔ شہر کی حالت لحظہ بہ لحظہ بد سے بدتر ہو رہی تھی....حالات پہلے کی نسبت زیادہ بدل رہے تھے.... اب بازاروں میں وہ پہلی سی رونق نہ تھی.... بہت سی دکانوں پر تالے پڑے ہوئے تھے.... رات کے وقت مسلح پولیس گشت لگاتی تاکہ شہر میں کوئی شورش برپا نہ ہونے پائے۔ ایک روز نصف شب کے قریب بازار میں اس قدر شور ہوا کہ سرگ اپنے بستر سے برہنہ پا بھاگ کر کھڑکی کے پاس دوڑا گیا تاکہ معلوم کرے وہ شور کیسا ہے۔ کیا دیکھتا ہے کہ بازار میں آگ کا الاؤ جل رہا ہے جس کے ارد گرد لوگ وحشیوں کی طرح چل پھر رہے ہیں۔ سرگ نے سوچا کہ یہ چیزیں کسی خوفناک واقعہ کی پیش خیمہ ہیں۔ اس خیال نے اس کی رگوں میں خون منجمد کر دیا۔ یہ خیال کر کے کہ وہ جن بھوتوں کی طرح اسے آگ پر بھون کر کھا جائیں گے، وہ اس قدر خوفزدہ ہوا کہ چلا اٹھا’’ امی! امی! مجھے سخت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھاگا ہوا اپنی ماں کے پاس گیا’’ سرگ تم سوتے کیوں نہیں ! جاؤ اپنے بستر پرجا لیٹو۔‘‘ ماں نے نیند سے بیدار ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ امی! وہ دیکھو بازار میں آگ جل رہی ہے۔ مجھے اس بات سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ ’’ جاؤ سرگ اپنے بستر پر جا لیٹو.... یہ آگ واگ کچھ بھی نہیں .... کاش! تمہارے ابا یہاں موجود ہوتے۔‘‘ ’’ امی....‘‘ ’’ ہاں ، میرے بچے!‘‘ ’’ میں آپ کے پاس آ جاؤں ؟.... مجھے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ ’’ کس سے؟ میرے جگر کے ٹکڑے۔‘‘ ’’ جادوگر سے امی۔‘‘ ’’ وہ کونسا جادوگر۔‘‘ ’’ بہت سے جادو گر ہیں امی.... مختلف قسم کے جادوگر۔‘‘ ’’ تو پھر میرے پاس آ جاؤ۔‘‘ سرگ خوشی خوشی اپنی ماں کے پاس جا لیٹا اور اپنے آپ کو لحاف میں چھپا کر کہنے لگا۔’’ امی وہ لوگ سب کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘ اس کی ماں تو تھوڑی دیر کے بعد ہی سو گئی مگر سرگ لحاف سے منہ نکال کر سوچنے لگا کہ آیا وہ شخص برے ہیں یا اچھے مگر کوئی اطمینان بخش نتیجہ نہ نکال سکا۔ دوسرے روز صبح کو جب سرگ کو ناشتہ ملا تو اس کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی جب گرم گرم بسکٹوں کی بجائے اس نے میز پر سخت اور ٹھنڈی روٹی کے ٹکڑے دیکھے۔ ’ ’ مجھے بسکٹ لا کر دو! میں ایسی فضول چیز نہیں کھانے کا.... تم بسکٹ نہیں لاتے؟‘‘ سرگ نے خشک روٹی کے ٹکڑوں کو میز سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ ’’ ننھے آقا! آپ کو خدا کا شکر کرنا چاہئے کہ ہمارے ہاں یہ خشک روٹی بھی موجود ہے۔‘‘ نو کر نے سرگ کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’کیا کہا؟ جاؤ جاؤ یہ اٹھا لو.... امی! امی! مجھے بسکٹ لا کر دو۔‘‘ ’’ سرگ پیارے! میں تمہیں بسکٹ کہاں سے لا کر دوں .... بسکٹ بنانے والے کار خانے ہی بند ہیں۔‘‘ ’’وہ کیوں ؟‘‘ ’’ کارخانے کے مزدوروں نے ہڑتال کر دی ہے۔‘‘ پھر وہی مزدور! سرگ ان مزدوروں کی حرکت سے تنگ آگیا تھا۔ تنگ آ کر بولا۔’’ مگر بسکٹوں کے بغیر صبح کا ناشتہ کیسے ہو گا؟‘‘ ’’ ہم تمہارے بسکٹوں کے لئے کوشش کریں گے۔‘‘ ’’ کیا گورنر انہیں مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ بسکٹ تیار کریں۔‘‘ ’’ سرگ پیارے! گورنر بیچارہ کیا کرے۔ وہ تو کسی کا حکم نہیں مانتے۔‘‘ ’’ گورنر کا بھی؟‘‘ ’’ گورنر کیا۔کسی کا بھی حکم نہیں مانتے۔ ’’ تو پھر وہ گورنر سے بھی بڑے ہوئے نا!‘‘ ’’سرگ ان باتوں کو چھوڑو اور خدا کا شکر کر کے یہی روٹی کھا لو۔‘‘ ’’میں تو ایسی بھدی روٹی نہیں کھانے کا۔‘‘ ’’ مگر تمہیں مجبوراً کھانی پڑے گی۔‘‘ ’’ وہ کیوں ؟‘‘ سرگ کی حیرانی لحظہ بہ لحظہ اور روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ وہ سخت حیران تھا کہ وہ لوگ جو کار خانوں کو چشم زدن میں بند کر سکتے ہیں ، جو گورنر تک کا حکم نہیں مانتے۔ پولیس سے اس طرح کیونکر بھاگتے پھرتے ہیں۔ اس نے خیال کیا کہ یہ لوگ ویسے ہی جادوگر ہیں جن کا حال میں عموماً کہانیوں میں پڑھا کرتا ہوں اور یہ کہ ان کے پاس بھی ان جادوگروں کی طرح ایسی ٹوپیاں ہوں گی جن کے پہننے سے وہ غائب ہو جاتے ہوں گے۔ جب گورنر ان کو کام سے کہتا ہو گا، تو وہ جھٹ ٹوپی پہن کر گورنر کی آنکھوں سے غائب ہو جاتے ہوں گے۔ بے چینی کی لہر آہستہ آہستہ بازاروں سے ہوتی ہوئی ان سر بفلک محلات میں بھی داخل ہو گئی۔ جن کے ساکنوں نے آج تک مصیبت اور تکلیف کا نام تک نہ سنا تھا۔ ب ان محلوں میں وہ پہلی سی شان و شوکت نہ رہی۔ خوشی کے نغمے اور قہقہے جن سے ان کی دیواریں ہمیشہ گونجا کرتی تھیں .... آہستہ آہستہ غائب ہو گئے۔ اب ان کی جگہ ایک نا معلوم خوف نے لے لی۔وہ جن کے کان خوف سے بالکل نا آشنا تھے اب ہر وقت کسی نا معلوم خوف سے ہراساں رہنے لگے۔ ایسے افراد میں سرگ کی والدہ کا شمار تھا۔ ایک روز شام کے قریب سرگ کے گھر میں بجلی کی رو بند ہو گئی۔ سرگ نے اپنی والدہ سے کہا’’ امی معلوم ہوتا ہے۔بجلی گھر کا انجن خراب ہو گیا ہے۔‘‘ ’’ ملاقات کے کمرے کا لیمپ تو جلا کر دیکھو۔‘‘ ’’ امی! اس کمرے کا کیا۔ کوئی لیمپ بھی نہیں جلتا۔‘‘ ’’ کیا بجلی گھر میں تو ہڑتال نہیں ہو گئی؟‘‘ خادم آگنیش نے کہا’’ جی ہاں ! میں نے سنا ہے کہ بجلی گھر والوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘ ’’ آگنیش! دیکھو گھر میں موم بتیاں ہیں ؟‘‘ ’’ جی ہاں ! مگر بہت تھوڑی۔ ‘‘ اب اس گھر میں جو بجلی کی روشنی سے بقعہ نور بنا ہوا تھا تاریکی.... قیامت کی تاریکی مسلط تھی.... ہال میں بجلی کے قمقموں کے بجائے موم بتی کی زرد روشنی ٹمٹما رہی تھی۔ اس روشنی کے گرد سرگ اور اس کی ماں دونوں بیٹھے دن کے واقعات پر غور کر رہے تھے کہ باورچی خانہ سے خادم تازہ خبر لائے کہ تھوڑے دنوں کے بعد نلوں میں پانی آنا اور گوشت بکنا بھی بند ہو جائے گا۔ سرگ ان ہو شربا خبروں کو حیرت و استعجاب کی تصویر بنا ہوا سن رہا تھا۔ اب اسکے ننھے دماغ میں یہ خیال پوری طرح مسلط ہو گیا کہ مزدور لوگ ضرور جادو گرہیں .... بہت بڑے جادوگر جو صرف الہ دین کے چراغ ہی سے مطیع ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ جادوگر چاہیں تو ایک اشارے سے ریل گاڑی چلنی شروع ہو سکتی تھی۔ اس کا باپ فوراً گھر آ سکتا ہے۔ ان کے حکم سے بجلی کی رو پھر واپس آ سکتی ہے اور کمرے پہلے کی طرح پھر جگمگا سکتے ہیں اور اگر وہ چاہیں تو اسے ہر روز صبح ناشتے کے ساتھ گرم اور تازہ توس مل سکتے ہیں۔ سرگ اس بات کا متوقع بھی نہ تھا، جب پندرہ دن کے بعد ایک دن یک لخت معجزے رونما ہوئے۔ یعنی ٹریم کاریں چلنی شروع ہو گئیں۔بجلی کی رو آ گئی۔ اخباروں کی اشاعت از سر نو جاری ہو گئی۔ صبح ناشتہ کے ساتھ توس ملنے لگ گئے اور اس کا باپ گھر آ گیا.... غرضیکہ اتنی اچھی باتیں بیک وقت ہو گئیں۔ ایک روز جب وہ اپنے ابا کے ساتھ بازاروں میں گھومنے کے لئے گیا۔ تو اس نے خلاف توقع بہت سے’’ جادوگروں ‘‘ کو آزادانہ چلتے پھرتے دیکھا۔جو ہاتھ میں جھنڈے پکڑے مختلف قسم کے راگ گاتے ہوئے بازاروں میں چکر لگا رہے تھے۔ جب سرگ واپس آیا تو اس نے چاہا کہ اب کی دفعہ اکیلا بازار میں جا کر ان’’ جا دو گروں ‘‘ کا تماشہ دیکھے۔ ’’امی.... میری پیاری امی! بازار میں جادوگر گزر رہے ہیں کیا میں انہیں دیکھنے جاؤں ؟‘‘ ’’ ہر گز نہیں ؟‘‘ ’’ امی اب تو وہ بہت برے نہیں۔‘‘ اسی طرح کئی ماہ گزر گئے.... اب پہلے کی طرح امن تھا۔ کسی قسم کے شورش یا ہڑتال رونما نہ ہوئی۔ گھروں میں پھر خوشی کے نغمے اور قہقہے گونجنے لگے اور وہ نامعلوم خوف جو لوگوں کے دلوں پر مسلط ہو گیا تھا، رفتہ رفتہ بالکل غائب ہو گیا۔ ایک روز سرگ بڑا اداس ہو گیا.... اس کی ماں اور باپ دونوں تھیٹر گئے ہوئے تھے۔ گھر کی خادمہ کسی کام میں مشغول تھی اور اس کی بہن اپنی گڑیوں میں کھیل رہی تھی۔ سرگ حیران و پریشان ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا رہا تھا کہ وقت کاٹنے کے لئے کیا کرے۔ ’’ دادی اماں ! بتائیے میں کیا کروں۔‘‘ ’’ آؤ میرے پاؤں دباؤ۔‘‘ ’’ میں نہیں دباتا.... پاؤں دبانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اسی خیال میں مستغرق دوسرے کمرے میں گیا اور اپنی بہن کی نئی گڑیا توڑ ڈالی۔ اس حرکت پر ماما سخت خفا ہوئی اور اس نے اسے کمرے سے باہر نکال دیا۔ اب وہ چاہتا تھا کہ باورچی خانہ میں ہر گز نہ جانے دے۔ سرگ نے تنگ آ کر کہا’’ مگر میں کیا کروں .... میں اکیلا ہوں۔‘‘ خادمہ نے سرگ سے پوچھا’’ کیا تمہارے لئے کوئی اور دلچسپی باقی نہیں رہی؟‘‘ ’’ یہ کون باتیں کر رہا ہے؟‘‘ ’’ باورچن کا خاوند آیا ہوا ہے۔ وہی باتیں کرتا ہو گا۔‘‘ ’’ یہ دلچسپ چیز نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ ’’ وہ دلچسپ کس طرح ہوا.... وہ معمولی سا آدمی ہے، ایک غریب مزدور۔ ’’ باورچن کا خاوند ایک مزدور!‘‘ ’’ کیوں۔‘‘ ’’ایک جادوگر.... اب تو میں ضرور اندر جاؤں گا۔‘‘ ’’ سرگ! اگر تم نے ایسا کیا تو میں تمہاری اماں سے کہہ دوں گی کہ تم نے ان کی نا فرمانی کی ہے۔‘‘ ’’ تم چغل خور بھی ہو؟.... چغل خور! کہہ کر تو دیکھو۔ میں نے بھی انہیں بتا نہ دیا ہو کہ تم نے صبح دودھ پر سے بالائی اتار کر کھا لی تھی‘‘ ’’ یہ بالکل غلط ہے.... میں نے تو دودھ میں سے مکھی نکالی تھی۔‘‘ سرگ بہت عرصے تک خادمہ سے جھگڑتا رہا۔ مگر اس نے اسے باورچی خانے میں جانے کی اجازت نہ دی۔ جب خادمہ کمرے سے چلی گئی تو سرگ نے اطمینان کا سانس لیا اور باورچی خانے کے دروازے کے قریب جا کر اسے آہستہ آہستہ کھولنا شروع کیا۔ سرگ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ دروازہ ایک دم کھول دے۔ اس لئے وہ کچھ عرصہ سانس بند کئے دروازے کے ساتھ لگا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہمت کر کے اس نے کمرے کے اندر جھانکا.... ایک بھدا سا آدمی میز پر بیٹھا کچھ کھا رہا تھا۔ اس کی حرکت سے معلوم ہوتا تھا گویا وہ ڈر رہا ہے کہ کوئی شخص اس کا کھانا نہ چھین لے۔ اسی لئے وہ دوسرے ہاتھ سے پلیٹ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا۔ سرگ حیران تھا کہ وہ ’’جادوگر‘‘ کہاں ہے؟.... ایسا بھدا مزدور اتنا طاقتور جادوگر نہ ہو سکتا تھا۔ اس نے باورچی خانے کے ہر گوشہ میں نگاہیں دوڑائیں۔ مگر اس شخص اور باورچن کے سوا کسی اور کو موجود نہ پایا.... تو پھر اس کے یہ معنی تھے کہ وہ بد نما شخص ہی جا دو گر ہے۔ سرگ اس راز کو معلوم کرنے کے لئے باورچی خانے میں داخل ہو گیا جس پر’’ جادوگر‘‘ اس قدر چونکا کہ اس کے ہاتھ سے پلیٹ گرتے گرتے بچی۔ باورچن نے اپنے خاوند کو تسلی دیتے ہوئے کہا’’ تم کھانا کھائے چلو.... ننھے آقا تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘ سرگ نے حیران ہو کر پوچھا۔’’ ہیں ؟‘‘ ’’ اپنی امی سے مت کہئے کہ یہ شخص شوربا پی رہا تھا.... یہ کھانے سے بچا ہوا تھا۔ ننھے آقا۔‘‘ ’’ یہ شخص بہت بھوکا ہے۔ننھے آقا! آپ کو اس پر رحم کرنا چاہئے۔‘‘ ’’ کون؟‘‘ ’’ یہ شخص.... میرا خاوند۔‘‘ ’’ تمہارا خاوند؟‘‘ ’’ سرگ نے اپنے آپ کو یقین دلانے کی خاطر اس شخص کو غور سے دیکھا اور اپنے دل میں کہا۔اس جادو گر نے ضرور اپنی شکل تبدیل کر رکھی ہے۔ اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا:’’ تم جا دو گر ہو.... مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔ تم جادوگر ہو!‘‘ مزدور نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔’’ کون!‘‘ ’’ تم اور کون!‘‘ ’’ میں ایک غریب مزدور ہوں مگر آقا!‘‘ ’’ لیکن تم جادوگر ہو.... مجھے یقین ہے کہ تم جادوگر ہو۔ تم سب کچھ کر سکتے ہو۔یہ سب حرکتیں تمہاری تھیں لیکن دیکھو اب ایسی حرکت نہ کرنا.... بغیر بجلی کے گھر میں سخت اندھیرا ہو جاتا ہے اور کارخانے بند کرنے سے مجھے بسکٹ نہیں ملتے۔‘‘ ’’ جناب! میں نے تو ایسی حرکت کبھی نہیں کی.... میں ابھی جاتا ہوں۔‘‘ ’’ تم مجھے دھوکہ دے رہے ہو۔ تم تو کسی سے خوفزدہ ہی نہیں ہوتے۔ میرا خیال تھا کہ تم مکان جتنے بڑے ہو گے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شکل تبدیل کر رکھی ہے۔‘‘ ’’آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ اس طرح مذاق اڑانا گناہ ہے۔ میرے آقا!‘‘ ’’ میں نے خیال کیا تھا کہ تم بہت سنجیدہ ہو گے، مگر معلوم ہوتا ہے کہ تم مسخرے بھی ہو۔ شوربا پیتے وقت تمہارے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس لئے میں تم سے ذرہ بھر بھی خوفزدہ نہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر سرگ باورچی خانہ سے باہر نکل کر دروازے میں کھڑا ہو گیا تاکہ اگر جادوگر اس کا تعاقب کرے۔ تو وہ دوڑ کر گھر میں بھاگ جائے۔ مگر خلاف توقع جادوگر نے اس کا تعاقب نہ کیا۔ سرگ نے مڑ کر دیکھا تو جادوگر....ہاں ؟ وہی جادو گر۔ ایک کونے میں کھڑا رو رہا تھا اور اپنے آنسوؤں کو اپنی غلیظ آستین سے صاف کر رہا تھا۔ ’’ ایک جادوگر ہو کر تم رو رہے ہو! اچھا ہوا تمہیں ایسی ہی سزا ملنی چاہیے۔ تم نے میرے اباکو گھر میں کیوں نہ آنے دیا تھا؟.... تم نے بجلی کی رو کیوں بند کر دی تھی؟ تم نے میرے بسکٹ بنانے کیوں بند کر دیئے تھے؟ اب تمہیں خدا نے خوب سزا دی ہے۔ روؤ! اور خوب روؤ.... یہ کہہ کر سرگ خوشی کے نعرے مارتا ہوا گھر میں چلا گیا اور خادمہ کے پاس جا کر کہنے لگا: ’’اب میں اس جادو گر سے نہیں ڈرتا.... ذرہ بھر بھی نہیں ڈرتا۔‘‘